• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 5:13pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 4:56pm
  • ISB: Zuhr 12:06pm Asr 5:05pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 5:13pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 4:56pm
  • ISB: Zuhr 12:06pm Asr 5:05pm

’خطرہ ٹلا نہیں، پاک-بھارت جنگ کسی واضح انجام کے بغیر جاری رہے گی‘

شائع May 29, 2025

بھارت کی بلاجواز جارحیت کے خلاف کامیاب دفاع یقیناً قوم اور سیکیورٹی فورسز کے لیے باعث فخر اور بڑی کامیابی ہے۔ اس کے باوجود بھی تاحال جاری تنازع میں فتح کا جشن منانا قبل ازوقت محسوس ہوتا ہے۔ میزائلز اور ڈرونز کا تبادلہ بےشک رک گیا ہو لیکن دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی ختم نہیں ہوئی ہے۔ بھارتی وزیر اعظم کے بقول، یہ صرف ایک ’توقف‘ ہے۔ یہ ایک انتہائی خطرناک صورت حال ہے جس میں احتیاط کی ضرورت ہے فتح کا جشن منانے کی نہیں۔

وزیر اعظم شہباز شریف کا یہ تبصرہ کہ انہوں نے 1971ء کی جنگ کا بدلہ لے لیا ہے، انتہائی قابلِ اعتراض لگا۔ کیا حالیہ بھارتی حملے کے جواب میں دشمن کو شکست دینے کا موازنہ کسی بھی طرح ایسی جنگ سے کیا جاسکتا ہے کہ جس کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہوا؟ 1971ء کا سانحہ محض بھارت کے فوجی حملے سے کئی زیادہ تھا۔ یہ ہماری اندرونی جنگ بھی تھی جسے باحیثیت قوم ہمیں کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔ یہ سانحہ ہمارے ضمیر پر نقش ہے۔

قومی سلامتی کو سیاسی رنگ دینے سے ہر صورت اجتناب کرنا چاہیے۔ بھارتی جارحیت نے سیاسی محاذ پر قوم کو متحد کیا۔ سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات ایک جانب کرکے مسلح افواج کے ساتھ کھڑی ہوئیں۔ لیکن جیسے ہی حالات کی گرد تھوڑی بیٹھی ہے تو ایک بار پھر وہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں اور اس میں وہ بھول چکے ہیں کہ قومی سلامتی کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے۔

ایسے میں سب سے بڑی ذمہ داری حکومت کی ہے کہ بھارت کی جانب سے ایک اور حملے کے خطرے کے پیش نظر وہ سیاسی درجہ حرارت کو کم کریں۔ سیاسی طور پر منقسم قوم سے ملکی دفاع کمزور ہوتا ہے۔

اور پھر پاکستان کے آرمی چیف کی فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی اور پاک فضائیہ کے چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق بھی سوالات ہیں۔ بلاشبہ تینوں افواج نے بھارتی حملے کو ناکام بنانے میں کمال جرأت کا مظاہرہ کیا۔ بالخصوص پاک فضائیہ نے سب سے اہم کردار ادا کیا جس نے نہ صرف اپنی فضائی سرحدوں کا دفاع کیا بلکہ کئی بھارتی جنگی جہاز بھی مار گرائے۔ اس سے روایتی جنگی محاذ پر پاکستان کی رٹ ایک بار پھر قائم ہوئی۔ پاکستان کے آرمی چیف کی قائدانہ صلاحیتوں پر بھی کوئی شک نہیں۔

لیکن اس کے باوجود یہ سمجھنا مشکل ہے کہ 4 روز کے تنازع کی بنیاد پر آرمی چیف کو اعلیٰ ترین عہدے پر ترقی دینے کی کیا واقعی ضرورت تھی۔ یہ یقینی طور پر ایک باقاعدہ جنگ نہیں تھی۔ پاکستان کے پہلے فوجی آمر ایوب خان کے بعد جنرل عاصم منیر 5 اسٹار جنرل کے عہدے پر ترقی پانے والے پاکستان کے دوسرے فوجی سربراہ ہیں۔

جہاں مضبوط دشمن سے مقابلہ کرنے کی پاکستانی مسلح افواج کی صلاحیتوں کو سراہنے کی ضرورت ہے وہیں ہمیں اپنی کمزوریوں پر بھی تنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ بھارتی میزائلوں کا اہم فضائی اڈوں بشمول دارالحکومت کے قریب واقع نور خان ایئربیس کو نشانہ بنایا جانا پاکستان کے لیے باعث تشویش ہونا چاہیے۔ یقینی طور پر نقصان اتنا زیادہ نہیں ہوا ہوگا جتنا کہ بھارتی وزیر اعظم دعویٰ کررہے ہیں۔ اس کے باوجود ایک اور بھارتی حملے کے امکان کے پیش نظر پاکستان کو اپنی خامیوں کو دور کرنا ہوگا۔

4 روزہ فوجی ٹاکرا دو جوہری ہتھیاروں سے لیس ہمسایوں کو باقاعدہ جنگ کے نہج تک لے آیا جبکہ اس نے علاقائی اور عالمی جغرافیائی سیاست میں تیزی سے آتی تبدیلیوں کی بھی عکاسی کی۔ بھارت کو گمان تھا کہ متنازع خطے کے سیاحتی مقام پر دہشتگردانہ حملے کے جواب میں وہ پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کرے گا تو اسے بین الاقوامی حمایت حاصل ہوگی لیکن اس کی یہ چال بری طرح ناکام ہوئی۔ شاید مودی حکومت کے لیے سب سے زیادہ چونکا دینے والی پیش رفت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ دعویٰ تھا کہ انہوں نے تجارت کو فائدے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے جنگ بندی کی ثالثی کی۔

مغرب میں اپنے اسٹریٹجک اتحادیوں سے پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کے لیے حمایت حاصل کرنے میں بھارت کی ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ پہلگام دہشت گردانہ حملے میں اسلام آباد کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کے حوالے سے کوئی ٹھوس ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہا۔ بھارت زیادہ تر ماضی کے واقعات پر انحصار کرتا رہا جن میں مبینہ طور پر مقامی عسکریت پسند گروپوں کا کردار تھا۔ اسرائیل شاید واحد ملک تھا جس نے پاکستان کے خلاف بھارت کی فوجی کارروائی کی کھلے عام حمایت کی۔

امریکا اور دیگر مغربی ممالک کی طرف سے دونوں ریاستوں کو تحمل کے مشورے دینے کی ایک اور معقول وجہ یہ تھی کہ انہیں ڈر تھا کہ یہ کشیدگی جوہری تصادم میں تبدیل ہو جائے گی جس کے عالمی امن پر تباہ کن نتائج سامنے آئیں گے۔ مودی سرکار نے اپنے زعم میں بھارت کی اسٹریٹجک اور اقتصادی اہمیت کا غلط اندازہ لگایا۔

تاہم کشمیر اور دیگر تصفیہ طلب مسائل پر دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کی ٹرمپ کی پیشکش کو بہت زیادہ اہمیت دینا غلطی ہوگی۔ نئی دہلی کی طرف سے کوئی بیرونی ثالثی قبول نہیں کی جائے گی۔ اس کے علاوہ تجارت اور محصولات کے مسائل پر دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے باوجود بھارت امریکا کا ایک اسٹریٹجک اتحادی ہے لیکن اس میں کوئی دورائے نہیں کہ پاکستان کے پاس واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کرنے کا ایک اچھا موقع ہے۔

تاہم بھارت کے لیے ایک اور پریشان کُن امر پاک-چین دفاعی تعاون کی بالادستی ہے۔ فضائی جنگ میں پاکستان کی شاندار کامیابی بڑی حد تک چین کے ساتھ اسٹریٹجک اتحاد کا نتیجہ ہے۔ دونوں فضائی افواج کے درمیان قریبی تعاون کے علاوہ چین پاکستان کے بحری محاذ پر بھی تعاون کررہا ہے۔

پاکستان اور چین کے مشترکہ سلامتی، عسکری اور مالیاتی خدشات ہیں۔ چین کے ساتھ روایتی اور اسٹریٹجک تعلقات کو آگے بڑھانا اور انہیں مضبوط کرنا پاکستان کی خارجہ اور قومی سلامتی کی پالیسیز کا ایک لازمی جزو ہے۔ تاہم بیجنگ نہیں چاہے گا کہ اس کے دو جوہری ہتھیاروں سے لیس ہمسایوں کے درمیان تنازع سنگین رخ اختیار کرے۔ یقیناً بھارت اور پاکستان کے درمیان نئی چنگاڑی کے پورے خطے اور اس سے باہر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔

ایسا لگتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی، میدانِ جنگ سے سفارتکاری کے محاذ پر منتقل ہوچکی ہے جہاں دونوں ممالک اپنے وفود کو متعدد ممالک میں بھیج کر تنازعے کے حوالے سے اپنے مؤقف کی وضاحت کررہے ہیں۔ یہ تو واضح ہے کہ دونوں فریق دہشتگردی کا مسئلہ اٹھا رہے ہوں گے جو بظاہر جاری خفیہ جنگ میں ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔ لیکن بین الاقوامی برادری دونوں ممالک کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے کیا کر سکتی ہے، اس کی حدود ہیں۔

دونوں فریقین نے ایک ایسے تنازعے میں فتح کا اعلان کیا ہے جس کا کوئی حل نہیں نکلا ہے۔ یہ ایک ایسی جنگ ہے جس کا کوئی واضح انجام نہیں۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

زاہد حسین

لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 5 جون 2025
کارٹون : 4 جون 2025